Orhan

Add To collaction

اممیدنو کا روشن سوےر

afsanay.com
umeed e no ka roshan sawer
زمین پر غرور و تکبر سے اکڑ کر چلنے والے کا اتنا برا انجام ہر کسی کے لئے باعث عبرت تھا ، شاه سائیں کا دل جواں بیٹے کی اس طرح لا وارثوں والی موت پر خون کے آنسو رو رہا تھا، بی بی جان اور مہرو کی آنکھیں بھی نم تھیں بہرحال وہ اس کے سر کا سائیں تھا۔

پورے گاؤں میں ایک سوگ کی کیفیت تھی مگر زندگی کا کام ہے اپنے دامن میں خوشیوں اور غم کے موتی سمیٹے آگے بڑ ھتے چلے جانا ہے کچھ دن بعد اس گھرانے کو بھی صبر آ گیا ، پھر شاه خاور کے نام پر ہی گاؤں میں ٰک خاورمیموریل اسکول اینڈ انڈسٹریل ہوم کی بنیاد رکھی گئی جس کا افتتاح نور کے والد سے کروایا گیا، پچیس سال پہلے ان کو جس طرح ذلیل و خوار کر کے نکالا گیا تھا آج وہی عزت و تکریم واپس مل گئی، مائرہ کا نکاح بابا سائیں نے اپنے پرانے وفا دار ملازم کے ساتھ کروا دیا تھا اور اسے عزت کے ساتھ بیٹی بنا کر گھر سے رخصت کیا، ماروی بہت خوش تھی آج اس کا اسکول میں نویں کلاس میں پہلا دن تھا اسے امید تھی ایک دن وہ بھی نور کی طرح پڑھ لکھ کر اس علم کے روشن دیئے میں اپنے نام کا ریا روشن کر سکے گی اس کے ساتھ ہی ایک مدرسے کا قیام بھی کیا گیا تھا جہاں بشیراں بې بی گاؤں کی عورتوں کو دین کی تعلیم دیتی تھیں، وہ اس کار خیر سے بہت خوش اور مطمئن تھیں کہ اس طرح ان کی زندگی کبھی دوسروں کے لئے کار آمد اور بامقصد بن گئی۔

نور اسکول اور انڈسٹریل ہوم کے لئے ضروری بنیادی سامان کی لسٹ بنارہی تھی وہ بری طرح اپنے کام میں منہمک تھی شاہ بخت نے اسے وقتی طور پر اسکول کا انچارج بنا دیا تھا اس نے اخبار میں اسٹاف کی اسامی کے لیے درخواست دی تھی ۔ قریبی قصبے سے پانچ لڑکیوں کو ٹیچر اپوائنٹ کر لیا گیا تھا اور ایک چوکیدار بھی رکھا گیا تھا ۔ نور اور شاہ بخت کا ارادہ تھا کہ وہ ہر ماہ وزٹ کرتے رہیں گے جبکہ نور کے بابا کو بطور مستقل یہیں قیام کرنا تھا، آج نور کا آخری دن تھا کل اسے شہر واپس چلے جانا تھا۔

"مس نور! میرے خیال سے سارا سیٹ اپ مکمل ہو چکا ہے اگر پھر بھی کہیں کوئی کمی ہے تو پلیز آپ مجھے بتا دیں میں جانے سے پہلے پورا

کر دوں گا، میں نہیں چاہتا کہ ہمارے گاؤں کے بچوں کو کسی قسم کی کوئی پریشانی ہو میں انہیں ہر سہولت فراہم کرنا چاہتا ہوں ۔“ شاہ بخت نے ٹھہرے ٹھہرے سنجیدہ لہجے میں پوچھا۔

نور نے شاہ بخت کی طرف دیکھا معمول سے ہٹ کر آج وہ سفید کرتے شلوار میں ملبوس تھا جس میں اس کا لمبا قد اور بھی نمایاں ہو رہا تھا۔ پہلی بار نور کو اپنا دل دھڑکتا ہوا محسوس ہوا، اس نے جلدی سے اپنی نظریں اس پر سے ہٹائیں جو شاہ بخت کی نگاہ سے اوجھل نہ رہ سکیں وہ اس کی اس ادا پرمسکرا کر رہ گیا۔

" اوہو تو محترمہ کے دل میں میری محبت کی بارش نے دستک دے ہی دی چل شاه بخت، ہمت پکڑے ، ورنہ تیری زندگی میں نور بکھیرتی یہ لڑکی اندھیرا کر کے چلی جائے گی۔"

"نہیں فی الحال کسی چیز کی کمی نہیں ہے کچھ فرنیچر اور کتابوں کی ضرورت تھی جو میں نے رحمت چاچا کو شہر بھیج کر منگوالی ہیں اور انڈسٹریل ہوم کی بھی آپ فکر مت کریں اسکول ٹائمنگ کے بعد نویں دسویں کی بچیوں کو مہرو اور ماروی مختلف سلائی کڑھائی سے تعلق ہنر سیکھائیں گی۔ "

" گڈ تو پھر آپ کل یہاں سے روانہ ہو رہی ہیں۔"

   1
1 Comments

Abraham

08-Jan-2022 11:26 AM

Good

Reply